جمعیۃ علماء ہند کی بڑی کامیابی ، مولانا محمود مدنی کا اظہار اطمینان
نئی دہلی۔۲۷؍جولائی(پریس ریلیز)آسام میں تاریخ کے بھیانک بوڈو مسلم کش فساد اور نقل مکانی کے خلاف اٹھارہ ہزار ایف آئی آر درج کراکے مقدمہ لڑنے والی جمعیۃ کی قانونی ٹیم کو بڑی کامیابی ملی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کی ہدایت پر قائم جمعیۃ لیگل سیل کی کوششوں سے گوہاٹی ہائی کورٹ میں بالآخر سبھی ۴۳؍افراد کو ضمانت مل گئی ہے۔سال ۲۰۱۲ء میں کل ۴۴؍مسلم نوجوانوں کے خلاف سی بی آئی کیس نمبر 6(B)12 کے تحت قتل ، لوٹ مار، آتش زنی اور ملک کے خلاف جنگ لڑنے کا مقدمہ درج ہوا تھا ، ان میں سے ایک شخص اسامہ علی کاعدالتی تحویل میں انتقال ہو چکا ہے۔ بقیہ کو عدالت نے ضمانت دیتے ہوئے اپنے مشاہدے میں کہا ہے کہ ملزمان کو مزید قید رکھنے کا کافی سبب موجود نہیں ہے، اس لیے ان کو بیس ہزار روپے کے مچلکہ پر ضمانت دی جاتی ہے ۔واضح ہو کہ ۲۰۱۲ء میں بوڈو نسل کش فساد کی وجہ سے پانچ لاکھ سے زائد مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے ، بوڈو شرپسند گروہ نے مسلمانوں کے خلاف کھلے عام ہتھیار کا استعمال کیا ، جانی نقصات کے علاوہ ان کے گھروں کو نذر آتش کیا گیا اور انھیں اپنا وطن ومکان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، جس کے مدنظر بوڈو فسادیوں کے خلاف تین مقدمات ہوئے جب کہ مبینہ طورپر توازن برقرار رکھنے کے لیے پولس نے غلط طریقے سے مسلم نوجوانوں کے خلاف بھی تین مقدمات درج کیے اور کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور مذکورہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ الحمدللہ جمعیۃ علماء ہند کی کوششوں سے ان کو ضمانت ملی ہے، تاہم ان کا مقدمہ عدالت میں جاری ہے ۔جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے لیگل سیل کے ذمہ دار ایڈوکیٹ مسعود عالم نے فون پربتایا کہ جمعیۃ لیگل سیل پوری توجہ سے مقدمہ لڑرہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان لوگوں کی رہائی مختلف مرحلوں میں ہوئی ہے اور ابھی چند دن قبل باقی چھ افراد کی رہائی جسٹس رومی کماری پھوکن کی عدالت سے عمل میں آئی ہے۔دوسری طرف ان نوجوانوں کی رہائی پر جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے اظہار اطمینان کرتے ہوئے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند مظلوم فساد متاثرین کے لیے قانونی جد وجہد جاری رکھے گی ۔مولانا مدنی نے اس کے لیے پوری ٹیم کو مبارک باد دی اور کہا کہ اصل مسئلہ انصاف کی فراہمی کا ہے، ہم آسام میں دو جہتوں پر مقدمہ لڑرہے ہیں، ایک طرف جہاں متاثرین کو انصاف دلانا ہے ، جن کو سخت جانی ومالی نقصانات کا سامنا کڑنا پڑا، وہیں دوسری طرف متاثرہ قوم کے جن افراد کو غلط طریقے سے پھنسایا گیا ان کو بھی رہا کرانا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے فساد کے بعد آسام میں وسیع پیمانہ پر راحت رسانی ، بازآبادکاری ، مکانوں کی تعمیر اور اجتماعی شادی وغیرہ کا نظم کیا تھا ،دریں اثنا ا س بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ متاثرین کا مقدمہ ایک منظم سسٹم کے تحت لڑاجائے ، فساد کے موقع پر مرکز کی طرف سے ریلیف کا عمل انجام دے رہے مولانا حکیم الدین قاسمی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند اور ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی رکن مجلس عاملہ جمعیۃ علماء ہند کو مولانا مدنی نے یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ اس طرح کے نظام کو قائم کرکے فعال بنائیں نیز مولانا مدنی نے خود بھی آسام کے دورے میں اس کا جائزہ لیا اور وکلاء کی ٹیم سے میٹنگیں کی ۔ان حضرات نے لیگل سیل کو چار زون میں تقسیم کرکے کام شروع کروایاجس میں جمعیۃ علماء آسام کے صدر مولانا بدرالدین اجمل کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔جمعیۃ علماء آسام کے ناظم اعلی حافظ بشیر نے کہا کہ یہاں ایک مسئلہ فساد کے بعد غائب اور لاپتہ افراد کا بھی ہے،ان کے بارے میں آج تک پتہ نہیں چلا ہے ، ہم ان کے لیے بھی جد وجہد کررہے ہیں۔